شاعری زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہر انسان کو متاثر کرتی ہے،اگر یہ کہا جاۓ کہ شاعری اور انسانی جذبات کا تعلق فطری ہےتو غلط نہیں ہوگا ۔ الفاظ کودل تک اتر جانے والی خوبصورت ترتیبوں میں جوڑکر انسانی احساسات کو مختصر انداز میں پیش کرنے کے ساتھ شاعری اپنے تخلیق کار اپنے شاعر کےحسن نظر ، علم اور تخیل کی بلندی کی عکاس ہوتی ہے۔اول تو ہمارے معاشرے کی بڑی جماعت مطالعہ کی زحمت سے بے نیاز ہو چکی ہے اگر کبھی تکلف اٹھا بھی لیا جائے توفقط الفاظ پڑھے جاتے ہیں۔ الفاظ کی گہرائی کو نہیں ٹٹولا جاتا، وہاں پڑے تخلیق کار کے اصناف کو محسوس کرنے یا پرکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ بلخصوص جب معاملہ شاعری کا ہو۔ شاید میں بھی کچھ ایسے ہی پڑھتا ہوں اس کے ردیف قافیہ سے محظوظ ہوتا ہوں گزر جاتا ہوں۔ حال ہی میں فیض احمد فیض کی نظم "رقیب سے"پڑھتے ہوئے مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا۔ پہلے بھی نظم کو کئی بار پڑھا لیکن اس کی گہرائی کا اندازا نہیں ہوا۔نظم کی گہرائی میں پڑا فیض صاحب کی شخصیت کا خوبصورت پہلو چشم ناچیز سے اوجھل رہا۔ لیکن اس بار میں کامیاب ہو گیا، میں نے "رقیب سے" اہم اصول سیکھ لیا۔ وہ اصول جس کا درس درد کو سمجھنا ہے، پیغام محبت ہے۔ وہی محبت جس کے بارے میں عصر حاضر کا ایک شاعر علی زریون کہتا ہے کہ "یہ عالمی خیرات ہے "۔ اور خیرات تو بغیر کسی تعصب کے تقسیم کی جاتی ہے۔ اس سے پہلے کے آپ نظم کو پڑھیں، آپ کو بتاتا چلو کہ اردو شاعری میں رقیب کے کردار کو ہیشہ ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسےاس نے آپ کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہو۔آپ کے تمام تر حالات کا ذم دار یہی کردار ہو۔مختصریہ کہ رقیب کو دنیا میں آپ کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔ لیکن فیض نے اس سارے نظریے کو ردکیا ہے اور "رقیب سے" میں رقیب کو ایک نئے انداز میں متعارف کروا کر اپنی منفرد سوچ اور حسن نظر کا واضح ثبوت پیش کیا ہے۔ آئیں زرا رقیب کو فیض کی نظر سے دیکھیں:
"رقیب سے"
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرماں کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ چھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈ لاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
شاعر: فیض احمد فیض
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں