انتخابی اصلاحات بل ۲۰۱۷میں ختم نبوتﷺ شق میں ترمیم
تبصرہ:
آغاز ایک سوال سے کرتا ہوں جس کا جواب آپ احباب سے کمنٹ باکس میں مطلوب ہے
ختم نبوت شق میں ترمیم کیاصرف حکومتی جماعت کی بدنیتی یا پھرحزب اختلاف بھی برابر کی شریک؟
آپ احباب کو جواب دینے میں آسانی ہو اس لیے کچھ حقائق پیش خدمت ہیں
(۱) حکومت اورحزب اختلاف پر مشتمل کمیٹی نے دوسال کی طویل مشاورت اورغوروخوض کے بعدانتخابی اصلاحات بل 2017 کا پہلا مجوزہ مسودہ 20 دسمبر 2016 میں پیش کیا جس میں ختم نبوت شق کے حوالے سے الفاظ کی ہیرپھیراور دوسری متنازعہ شق 203 بھی موجود تھی۔
(۲) انتخابی اصلاحات کے اس بل کوحتمی شکل دینے کے لیےاس کمیٹی کے 118 اجلاس ہوئے جن میں سے 25 پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس اور 93 وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کے اجلاس ہوئے۔اجلاسوں میں پارلیمان میں موجود حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے موصول ہونے والی 631 مختلف تجاویز پرغورکیا گیا۔
(۳) جب یہ مجوزہ مسودہ ایوان بالا پہنچا توحزب اختلاف جماعتوں کی پراسرار نااہلی کی وجہ سے حکومت انتخابی اصلاحات کےاس مجوزہ مسودہ کو منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن یاد رہے کہ جس دن یہ بل ایوان بالا میں پاس ہوا کسی بھی رکن نے شق 203کےعلاوہ بل میں موجودکسی بھی دوسری خامی پر آواز نہیں اٹھائی۔
(۴) اگلے مرحلے میں بل ایوان زیریں میں پیش ہوا جہاں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایوان بالا میں ہونے والی اپنی ناقص کارکردگی اور نااہلی کو چھپانے کے لیے حکومتی جماعت کے اکثریتی ایوان میں واویلا مچایا خوب واویلا مگراس بار بھی ہدف تنقید شق 203 تھی
(۵) اسی شوروغل میں جماعت اسلامی کے دانا رکن اسمبلی نے ایک اور خامی کی نشاندہی کی شاید ایوان میں بیٹھے وہ واحد شخص تھے جنہوں نے بل کی ہرشق کو غورسے پڑھاہوگااوراس اہم نقطہ کونوٹ کیا کہ ختم نبوت ﷺ شق پر بھی شب خون مارا گیا ہے لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی
(۶) مرکزی نقطہ یہ کے 3 سال کے عرصے میں بننے والے بل میں اتنی بڑی ترمیم کردی گئی اور کسی کو آخر تک پتا بھی نہ چلا اور جب پتا چلا تو پانی سر سے گزر چکا تھا اور اگر کسی کو پتا تھا تو اس نے پہلے آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ مختصریہ کہ نامزدگی فارم میں موجوداس ترمیم نے حکومتی جماعت کی نیت اور حزب اختلاف جماعتوں کی اہلیت کو مشکوک کردیا ہے
(۷) حزب اختلاف کی جماعتوں میں سے کسی نے بھی بروقت اس ترمیم کی نشاندہی نہیں کی اوراب اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے شورکرکےخودکواس جرم سےالگ کیاجارہا ہے جب کہ میرا ذاتی خیال ہے کے ایوان بالا اورایوان زیریں میں موجود تمام اراکین اس میں برابر کے شریک اور قصور وار ہیں اب آپ کے جوابات کا انتظار ہے
نوٹ :
عقیدہ ختم نبوت ﷺ میں تبدیلی نہ صرف آئین بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اساس سے بھی متصادم ہے۔ایک مصرعہ مجلس شوریٰ کے تمام اراکین کے نام :
"شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں