کئی دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ریاست میں نا انصافی کا بول بالا تھا اور وہ تباہ ہوگئی۔
ہاں تمہیں دیکھا تو یاد آیا۔۔۔!
" جج صاحب میری زندگی کے 12 سال واپس کرو" کیا بھلے دن تھے،محمد علی جیسے منجھے ہوئے اداکار نے جان ڈال دی تھی فلم میں، کیا نام تھا، وہ ۔۔۔ ہاں " قانون اور انصاف " یاد آگئی۔اکیسویں صدی میں بیسویں صدی کا فلمی سین تازہ ہوگیا۔ کچھ بھی نہیں بدلا فقط سالوں میں فرق آیا ہے۔
"جج صاحب میرے 19 سال لوٹا دو"
دارالحکومت کے پہلو میں حیدر علی سہالہ نامی ایک ڈھوک (گاؤں) ہے۔ جہاں مظہر حسین کا گھرانہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس گھر کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی یا کچھ اور۔۔۔
1997 کے کسی مہینے صبح سیاہ طلوع ہوئی اوراسماعیل نامی شخص کے قتل میں مظہر حسین ملزم نامزد ہوا۔ ممکن ہے پولیس نے روایتی پھرتیاں دکھائی ہوں۔مظہر حسین گرفتار ہوا اور3 اکتوبر 2003 میں جیل بھیج دیا گیا۔21 اپریل 2004 کو اسلام آباد کی سیشن عدالت کے جج اسد رضا نے مظہر حسین پر واضح کر دیا کہ دیکھو بھائی انصاف اندھا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس انصاف کے علاوہ تمہیں دینے کے لئے سزائے موت اور 3 لاکھ روپے کا جرمانہ ہے۔ممکن ہے یہ فیصلہ مظہر حسین اور اس کے خاندان پر تاریخ کا سیاہ دن ہو۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ملزم اور اس کے خاندان نے حوصلوں کویکجا کیا۔اب وہ ہائی کورٹ کے دروازے پر کھڑے تھے۔لیکن ابھی کہاں؟ روٹھی ہوئی خوشیاں اتنی جلدی کہاں مانتی ہیں۔ ابھی انصاف کا ماتم اور بھی ہے، ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا۔"مایوسی کفر ہے" شائد یہی وجہ تھی کہ مظہر کے اہل خانہ نے امید قائم رکھی۔گھر والوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ انصاف کی اسی جنگ کے دوران 5 فروری 2013 کو مظہر حسین کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے جہلم کی ڈسٹرکٹ جیل بھیج دیا گیا۔جہاں در زنداں پر کتنی ہی بہاریں آئی اور گزر گئیں۔ پھر 6 اکتوبر 2016 کو وہ سحر آئی جس کی مظہر حسین اور اس کے پیاروں کو شدت سے آس تھی۔عدالت عظمیٰ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس منظور احمد ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی ۔ حقائق سے پردہ اٹھا تو قانون کو بھی اپنا دھندلا کردار نظر آیا۔19 سال بعد
"ملزم مظہر حسین بے قصور نکلا"
معزز عدلیہ نے ملزم کو با عزت بری کرنے کا حکم جاری کردیا۔لیکن مظہر حسین مارچ 2014میں جھوٹے الزام کا دکھ لے کر اس دنیا سے باعزت بری ہوچکا ہے جج صاحب! اس قدر بے خبر عدلیہ ملزم زندہ ہے کہ نہیں یہ بھی نہیں جانتی۔
اب آپ سے زندان میں گزرے سالوں کا مطالبہ کرنے والا نہیں رہا۔19 سال کی تکلیف اور دو نسلوں کی تباہی کے بعد مظہر حسین کا لخت جگر خواجہ شہباز بس اتنا کہتا ہے کہ " امید ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے باقی قیدیوں کے لیے بھی امید کی ایک کرن پیدا ہوگی، جوبغیر کسی جرم کے جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں" خواجہ شہباز نے یہ بھی کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ ان کے والد اپنی بے گناہی ثابت ہونے کے موقع پر اس دنیا میں نہیں۔
یہ سب صرف مظہر حسین اور اس کے خاندان کے ساتھ نہیں ہوا۔ایسے بہت سے مظہر حسین اس ملک کی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔اس تما م تر صورتحا ل میں حکومت وقت اور معزز عدلیہ سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ کرمنل جسٹس سسٹم میں ہنگامی طور پر اصلاحات کی جائیں اور انصاف کے قتل عام کو روکا جائے، نہیں تو یاد رہے۔
کئی دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ریاست میں نا انصافی کا بول بالا تھا اور وہ تباہ ہوگئی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں