"سعودی کابینہ نے ملکی معیشت تیل کے بجائے صنعت و تجارت کے شعبوں پراستوارکرنے کی منظوری دیدی" (سعودی جریدہ)
تبصرہ:
"دیر آید درست آید"
مگرمیرے اندازے کے مطابق سعودی حکومت نے ڈوبتی معشیت کو سہارا دینے کے لیے "ویژن 2030" کا جو ہدف مقرر کیا ہے اس میں کامیابی کے آثار فیصداََ بہت کم ہیں۔
چند نہایت اہم وجوہات مندرجہ ذیل ہیں :
(الف) جب سعودی حکومت اخراجات کم کر نے کے لیے عوام کو دی گئی سہولیات میں کمی کر کے نئے ٹیکس عائد کرئےگئی تو وہاں کی عوام کو ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے کام کرنا پڑے گا مگر وہ وہاں پر موجود 80فیصد غیر ملکی مزدوروں (اجرتی غلاموں) کی طرح کم ترین اجرت پر کام نہیں کریں گئے جس کی وجہ سے مقامی باشندوں میں ناصرف غیر ملکیوں کے لیے عدم برداشت کا جذبہ پیدا ہوگا بلکہ حکومت کے متعلق بھی جذبات کچھ اچھے نہیں رہیں گئے۔
(ب) ویژن 2030 کے مطابق نجی اورغیرملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس کے لیے ریاست کو سب سے پہلے مزدوروں کے قوانین میں ترمیم کر کے بین الاقوامی قوانین کیمطابق کرنا ہوگا ۔ اورملازمین کی اجرتوں کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔ اجرت بڑھانے سے سرکاری اداروں میں ملازم 96فیصد ملازمین کی اجرتیں بھی بڑھانا پڑے گئی جس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر معاشی طور پر غیر مستحکم ریاست پر اخراجات کو بوجھ بڑھے گا۔
(پ) سرکاری اثاثوں کو غیر ملکی نجی اداروں کو فروخت کیا جائے گا جس سے ریاست میں غیر ملکیوں کا اثرورسوخ بڑھے گا جو شاہی حکومت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
(ج) ایک طرف سعودی حکومت تیل پر انحصار کو کم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تو دوسری طرف سرمائے کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کے 5 فیصد خصص کو وقت سے پہلے ہی فروخت کر کے اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔
(ح) آخری نقطہ سعودی حکومت تمام تر ریاستی مسائل کو صرف حکومت مینں موجود افراد تک ہی محدود رکھتی ہے یہاں تک کے سعودی عوام کو بھی ملکی معملات کی معلومات نہیں پہنچائی جاتی اگر معلومات عام بھی کی جائیں تو ان کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا جاتا ہے جب کے نجی سرما یاکار معلومات کی شفاف اور عام رسائی پر یقین رکھتے ہیں ایسی صورت میں مشکلات صرف شاہی خاندان کے لیے ہیں کہ وہ نجی سرمایاکاروں کو اپنی طرف متوجہ کر بھی پاتے ہیں یا نہیں ۔ اور اگر کر بھی لیا تو صرف اپنی ہی شرائط پر یا شاہی قانون میں لچک پیدا کی جائے گی۔
(پ) سرکاری اثاثوں کو غیر ملکی نجی اداروں کو فروخت کیا جائے گا جس سے ریاست میں غیر ملکیوں کا اثرورسوخ بڑھے گا جو شاہی حکومت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
(ج) ایک طرف سعودی حکومت تیل پر انحصار کو کم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تو دوسری طرف سرمائے کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کے 5 فیصد خصص کو وقت سے پہلے ہی فروخت کر کے اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔
(ح) آخری نقطہ سعودی حکومت تمام تر ریاستی مسائل کو صرف حکومت مینں موجود افراد تک ہی محدود رکھتی ہے یہاں تک کے سعودی عوام کو بھی ملکی معملات کی معلومات نہیں پہنچائی جاتی اگر معلومات عام بھی کی جائیں تو ان کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا جاتا ہے جب کے نجی سرما یاکار معلومات کی شفاف اور عام رسائی پر یقین رکھتے ہیں ایسی صورت میں مشکلات صرف شاہی خاندان کے لیے ہیں کہ وہ نجی سرمایاکاروں کو اپنی طرف متوجہ کر بھی پاتے ہیں یا نہیں ۔ اور اگر کر بھی لیا تو صرف اپنی ہی شرائط پر یا شاہی قانون میں لچک پیدا کی جائے گی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں