انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند..!



وہ خوش تھاکہ اسے بھی مراعات ملیں گی، اس کے آنگن میں زندگی اور خوشیاں رقص کریں گی۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم مئی کو ریلیاں نکالتے جلوسوں کے ساتھ بینرز اٹھائے، اپنے حق میں ہونے والی درد و سوز سے بھری تقا ریر سنتے ہو ئے وہ دل ہی دل میں خوابوں کے محل تعمیر کر رہا تھا۔ اس کے خواب نئے نہیں تھے ۔ یہ تو وہی چند خواب ہیں جن سے وہ مئی کی پہلی تاریخ کو ایک محل تعمیر کرتا ہے اور پھر سارا سال اس محل کو زمین بوس ہوتے دیکھتا ہے۔

کوئی تو ہوگا
کوئی تو ہوگا

ایک آس ایک امید یا پھر "مایوسی کفر ہے" شاید اسی لئے بھی وہ پر امید ہے۔ بار ہا ناکامی کے باوجود وہ پھر سے اس محل کے کھنڈرات سے اپنے خواب چنتا ہے اور زمانے کی گرد جاڑ پونچھ کر ایک نیا محل تعمیر کرتا ہے۔ کیسا خوبصورت ہے پرانے خوابوں کا نیا محل اس کی خوشی قابل دیدہے۔مگر

" مٹی ترسی، بوند نہ برسی، بادل گھِر گھِر آئے بہت"

ہر سال کیطرح اس مرتبہ بھی وہ حکمران طبقے کی جھوٹی تسلیاں سننے کے بعد گھر کی راہ لیتا ہے ۔ وقت اور حالات کی سختی سے شکستہ حالی کا گلہ کرتادروازہ اس کے سامنے ہے ۔ وہ ہاتھ بڑھا کر دستک دیتا ہے۔ تیز قدموں کی آواز ایسے جیسے کوئی بھاگ کر دروازے کی طرف لپکا ہے۔ در کھلتا ہے تو نیم آبدیدہ آنکھوں میں امید کی رمق لیے ایک چہرہ نمودار ہوتا ہے جس پر شدت انتظار کے بعد نمایاں ہونے والی راحت کے آثارواضح ہیں۔ اس سے پہلے کے وہ اندر داخل ہوتا ۔ کچھ لائے ہو؟
سوال اس کے قدموں اور ذہن کو ساکت کر دیتا ہے ۔ وہ کوئی جواب دیتا اس سے پہلے ہی دروازے پر کھڑی بے بسی کی تصویر نے چہرے پر نمودار ہونے والے تاثرات سے سب جواب اخذ کر لیے (یہ خصوصی صلاحیت اسے غربت نے عطاکی تھی )۔ ویسے بھی اب وہ الفاظ کے احسان نہیں اٹھانا چاہتی تھی۔ایک نظر بھو ک سے بلکتے بچوں کی طرف دیکھنے کے بعد وہ دروازے سے ہٹ جاتی ہےاور چند آنسو اس کے رخسار سے ہوتے ہوئے پل بھر کو ٹھوڑی پر رکتے ہیں اور اگلے ہی لمحے مٹی میں مل کر خوابوں کے محل کو پھر سے زمیں بوس کر دیتے ہیں ۔ بس ایک شکوہ باقی رہ جاتا ہے۔

ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پر تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ


تبصرے