بنگالہ دیش نام ہے اس دھرتی کا جہاں کی سیاسی تاریخ ، تہذیب اور قدرتی حسن قابل ذکر ہے۔ یہ خطہ جرات و بہادری میں بھی بے نظیر رہا ہے۔جب انگریز برصغیر پر وارد ہوئے تو سب سے پہلے بنگال سے ہی مزاہمت کی چنگاریاں بلند ہوئی اور یہ مزاحمت برصغیر کے کسی بھی دوسرے حصے کی نسبت سب سے زیادہ تھی۔1757 نواب سراج الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی خون ریز جنگ ہوئی۔ حیدر علی اور ان کے فرزند ٹیپو سلطان نے انگریز کو بنگال کی سر زمین پر خوب گھسیٹااور پھر بیسویں صدی کی ابتداء میں بنگال نے دوبارہ مزاحمت کا پرچم سر بلند کیا۔ تاریخ بدلنے والے فیصلوں کی داغ بیل ڈالی گی۔
• ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گی (جو بعد میں تحریک آزادی کا سبب بنی)
• بنگالی رہنماء مولوی فضل الحق کی صدارت میں ہونے والے جلسے میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی
• 1946 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنگال میں بڑی کامیابی نے تحریک پاکستان کو عملی جامع پہنانے میں اہم کردار ادا کیا
پاکستان معرض وجود میں آیا ریاست کو قوٰی کرنے کے لیے رہنما سر جوڑ کر بیٹھ گئے ادھر بھارت اکھنڈ والے بھی صدمے سے دوچار زخمی جانور کی طرح بپھرے پڑے تھے۔ بساط بچھائی گئی اور ایک سال بعدزبان کے مسئلے نے بنگال میں ایک نئی سیاسی تاریخ کو جنم دینا شروع کردیا۔ ڈھاکہ میں بغاوت کا علم بلند ہوا اور پھر ایک تحریک نے جنم لیا۔
• عدم برداشت کی سیاست نے فروغ پایا
• مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنماؤں میں دوریاں بڑھنے لگی
• گولیاں چلیں اور شہید مینار بھی بنا
• بنگالیوں کی فوج اور بیوروکریسی میں کم نمائندگی پر بھی احتجاج ہوئے
مختصر یہ کےنئے نئے جائز اورنا جائز محرکات شامل ہوتے گئے۔ حکمران طبقے کی نیتوں سے ثابت ہو رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کی رفاقت کچھ سالوں کی ہے۔ وقت گزرتا گیا لاپرواہی کی انتہا ہوئی کہیں1968 کی اگرتلا کی سازش نے جلتی پر تیل کا کام کیاتو کہیں 1971 کے سیلاب پر مفادات کی جنگ ہوئی۔ مغربی پاکستان کے رہنماؤں کی بے رخی اور مشرقی پاکستان میں بیرونی مداخلت نے مشرقی پاکستان کی عوام کو یہ تاثر دیا کے مرکز ہمارے ساتھ نا انصافی برت رہا ہے۔جو کسی حد تک درست بھی تھا۔
تاریخ میں سیاہ باب رقم کرنے کے لیے تاریخی غلطی ہوئی اور مجیب الرحمان کے چھ نکات کو خون سے دھونے کی کوشش کی گئی "سیاست نہیں قوت کا نعرہ بلند ہوا" یکے بعد دیگرے "ادھر تم ، ادھر ہم" نے بغاوت کے ماحول کو مزید ہوادی ۔ دشمنوں نے غلطی کا فائدہ اٹھایا اور اقبال کا پاکستان ٹوٹ گیا۔کلمہ طیبہ کے نعرے پر بننے والا ملک لسانی اور انتظامی بنیادوں پر تعصب پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔جو ہوا سو ہوا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے غلطیوں سے سبق سیکھا۔ اگر نہیں تو سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ غلطیوں پر پچھتاوا نہ ہونا علم نہ ہونے کی بڑی نشانی ہے۔ اس لیے ہوش سے کام لینا ہوگا اس سے پہلے کہ
• بنگالی رہنماء مولوی فضل الحق کی صدارت میں ہونے والے جلسے میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی
• 1946 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنگال میں بڑی کامیابی نے تحریک پاکستان کو عملی جامع پہنانے میں اہم کردار ادا کیا
پاکستان معرض وجود میں آیا ریاست کو قوٰی کرنے کے لیے رہنما سر جوڑ کر بیٹھ گئے ادھر بھارت اکھنڈ والے بھی صدمے سے دوچار زخمی جانور کی طرح بپھرے پڑے تھے۔ بساط بچھائی گئی اور ایک سال بعدزبان کے مسئلے نے بنگال میں ایک نئی سیاسی تاریخ کو جنم دینا شروع کردیا۔ ڈھاکہ میں بغاوت کا علم بلند ہوا اور پھر ایک تحریک نے جنم لیا۔
• عدم برداشت کی سیاست نے فروغ پایا
• مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنماؤں میں دوریاں بڑھنے لگی
• گولیاں چلیں اور شہید مینار بھی بنا
• بنگالیوں کی فوج اور بیوروکریسی میں کم نمائندگی پر بھی احتجاج ہوئے
مختصر یہ کےنئے نئے جائز اورنا جائز محرکات شامل ہوتے گئے۔ حکمران طبقے کی نیتوں سے ثابت ہو رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کی رفاقت کچھ سالوں کی ہے۔ وقت گزرتا گیا لاپرواہی کی انتہا ہوئی کہیں1968 کی اگرتلا کی سازش نے جلتی پر تیل کا کام کیاتو کہیں 1971 کے سیلاب پر مفادات کی جنگ ہوئی۔ مغربی پاکستان کے رہنماؤں کی بے رخی اور مشرقی پاکستان میں بیرونی مداخلت نے مشرقی پاکستان کی عوام کو یہ تاثر دیا کے مرکز ہمارے ساتھ نا انصافی برت رہا ہے۔جو کسی حد تک درست بھی تھا۔
تاریخ میں سیاہ باب رقم کرنے کے لیے تاریخی غلطی ہوئی اور مجیب الرحمان کے چھ نکات کو خون سے دھونے کی کوشش کی گئی "سیاست نہیں قوت کا نعرہ بلند ہوا" یکے بعد دیگرے "ادھر تم ، ادھر ہم" نے بغاوت کے ماحول کو مزید ہوادی ۔ دشمنوں نے غلطی کا فائدہ اٹھایا اور اقبال کا پاکستان ٹوٹ گیا۔کلمہ طیبہ کے نعرے پر بننے والا ملک لسانی اور انتظامی بنیادوں پر تعصب پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔جو ہوا سو ہوا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے غلطیوں سے سبق سیکھا۔ اگر نہیں تو سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ غلطیوں پر پچھتاوا نہ ہونا علم نہ ہونے کی بڑی نشانی ہے۔ اس لیے ہوش سے کام لینا ہوگا اس سے پہلے کہ
"میں اکثر دیر کر دیتا ہوں"
ہماری تاریخ کا عنوان بن جائے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں