غریب الوطن قیدی





بینک دولت پاکستان (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کی مالی سال 2016/2017 جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملکی خزانے کو19.3 بلین ڈالر کا سہارا دینے والے پاکستانی وہ ہیں جو وطن سے دور دیارغیرمیں مقیم ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی‎و انسانی وسائل کی وزارت کے مطابق اندازاَ 76 لاکھ پاکستانی وطن سے دور پردیس میں آباد ہیں۔جن میں سے 31 لاکھ کے قریب سعودی عرب اور دبئی میں مقیم ہیں جن کی بڑی تعداد کے لیے اگر میں "اجرتی غلام" کی اصطلاح استعمال کروں تو غلط نہ ہوگا۔
اقوام متحدہ کے محکمہ برائے اقتصادی اور سماجی معاملات کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے دیارغیرمیں رہنے والے افراد کی فہرست میں پاکستانیوں کا چھٹا نمبر ہے۔ یہ وہ چند اعدادوشمار ہیں جنہیں بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جس اہم مسئلے نے مجھے لکھنے پر مجبورکیا ہے اس کی اہمیت ،سنگین نوعیت، اور ریاستی غفلت کا اندازہ آپ کو بھی ہوسکے۔ کیونکہ جمہوری ملک کے جمہوری دور حکومت میں جمہوریت کے بنیادی یونٹ یعنی ووٹ کے حق سے محروم 4 فیصد پاکستانیوں کا یہ طبقہ جن سنگین مسائل سے دوچار ہے ان کا حل تو دور کی بات ، ان کے مسائل تو ہمارے ضرورت سے زیادہ تیز تر اور سب سے پہلے کی دوڑمیں شامل نابالغ میڈیا کی خبرتک بھی نہیں پہنچ پاتے۔
گلوبل ویلج سپیس نامی عالمی ویب سائٹ پرایک خصوصی رپورٹ کودیکھا جس کی شہ سرخی نےناصرف مجھے اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ پکڑکرجنجھوڑا بھی۔۔۔! لکھنے کا شغل جو کافی دنوں سے توقف کا شکار تھا اس مضمون کی وجہ سے اس جمود کو توڑنے میں بھی مدد ملی۔
گلوبل ویلج سپیس کی اس رپورٹ میں قومی اسمبلی کے 2014 میں ہونے والے آٹھویں سیشن میں وزارت خارجہ کے بیان کاحوالہ دےکربتایا گیا کہ 7016 افراد بیرون ممالک میں قید ہیں جن میں سے 4000 کے قریب سعودی عرب اور دبئی میں قید ہیں۔ دیار غیر میں قید ان پاکستانیوں کے جرائم کی نوعیت مختلف ہے لیکن ایک بڑی تعداد انتہائی معمولی جرائم میں قید ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان قیدیوں میں کچھ خواتین قیدی ایسی بھی ہیں جو دوران حراست مائیں بھی بنی لیکن اس کے باوجود ان کو رہا کیا گیا اورنہ ہی کروانے کی کوشش کی گئی۔ مجرمانہ سفارتی غفلت کے باعث ان کے نوزائیدہ بچے بغیر کسی جرم کے پابند سلاسل ہیں۔ جو عالمی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔لیکن پاکستان کی طرف سے ان خواتین اور بچوں کی مدد کے لیے کسی بھی عالمی فورم پرتسلی بخش اقدامات کی معلومات میسر نہیں۔
2014 میں اس حساس ترین معاملے پر قومی اسمبلی میں کی گئی بحث کے بعد مجھے امید تھی کہ ریاست نے ضروری اقدامات اٹھائے ہوں گئے اوراب سفارتی عملہ اور پاکستانی قونصل خانے سنجیدگی سے کام کر رہے ہوں گے اوردیار غیر میں قید پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اب آزاد زندگی گزار رہی ہوگی لیکن روٹھی ہوئی خوشیاں اتنی جلدی کہاں مانتی ہیں۔
تازہ اعدادوشمارکے مطابق بیرون ملک قید پاکستانیوں کی اس تعداد میں کمی کے بجائے غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اس سفارتی نااہلی اور غیر ذمہ داری کے خلاف بیرون ملک قید پاکستانیوں کے لواحقین نے معزز عدلیہ کا دروازہ کھٹکٹایا تو مارچ 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ بھی عدالتی کارروئی کے دوران یہ ریمارکس دینے پر مجبور ہوگئے کہ حکومت کی بیرون ملک بلخصوص عرب ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے صرف ایک پالیسی ہے کہ "نو پالیسی"۔ ان ریمارکس کے بعد وزارت خارجہ کو ہوش آیا اور19 اپریل 2017 کو وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امورقومی اسمبلی میں پیش ہوئے اوربغیر کسی شرمندگی کے بتایا کہ بیرون ملک قید
 پاکستانیوں کی تعداد 11764 کا ہندسہ عبور کر چکی ہے یاد رہے کہ یہ وہ مقدمات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ دیار غیر میں قیدغیرقانونی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد وزارت خارجہ کی اس فہرست میں شامل نہیں۔ خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے وزارت خارجہ کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان تمام اقدامات سے بھی آگاہ کیا جن اقدمات کا عملی طورپراطلاق کہیں نظر نہیں آتا ۔ 2014 اور 2017 کے اعدادوشمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ 
اگرریاست کے آئین اور قانون کی بات کی جائے توبیرون ملک مقیم ہر پاکستانی کو مدد اور تعاون فراہم کرنا قونصل خانے کی اولین ترجیح ہے۔ پاکستان ڈپلومیٹک اورقونصلراستحقاق ایکٹ 1972، کے آرٹیکل 5 بعنوان "قونصلر کے کام" جز الف میں واضح لکھا ہے کہ ایک قونصلر کا کام ہے کہ جس ملک میں اسےذمہ داری سونپی گئی وہاں اپنی ریاست اور وہاں مقیم ہم وطنوں کے مفادات کا تخفظ کرنا، افراد اور لاشوں کے ساتھ تعاون کرنااس کے علاوہ دیگرمعاملات میں مدد اور تعاون فراہم کرنا۔خیر ہمارے قونصل خانے ان تمام جنجھٹوں سےآزاد ہیں بلخصوص ان ممالک میں جہاں مزدور پاکستانیوں کے حقوق سب سے زیادہ پائمال کیے جاتے ہیں۔ بیرون ملک قید ومقیم پاکستانیوں کیساتھ ہونے والی ناانصافیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہمارے قونصل خانے اپنے بنیادی آئینی و قانونی فرض کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے 11 ہزار سے زائد پاکستانی وطن سے دوراذیت کی قید کاٹ رہے ہیں۔ بیرون ملک قید پاکستانیوں کو بھی اس محرومی کا شدت سے احساس ہے کہ ان کی ریاست اس کے ادارے اورحکمران مشکل وقت میں انکی مدد کو نہیں آتے اور نا آئیں گے وہ آزاد اور منصفانہ ٹرائل کے حق سے محروم ہیں۔ مقامی زبان سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ان سے ایسے اقراربھی کروائے جاتے ہیں جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔قونصل خانوں کی نااہلی اور غیرذمہ دار رویہ وہ اجر ہے جو وطن کی معیشت کو سہارا دینے والے 4 فیصد پاکستانیوں کو دیا جا تاہے۔ اس سفارتی نااہلی پر ریاست کی خاموشی پراسرار ہے۔ریاستی اداروں کے اس ظلم کے خلاف عوامی نمائندوں کومیدان عمل میں آنے اور دیس کی خاطر پردیس کاٹنے والوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے ۔


تبصرے