ماں اب بھی راہ تکتی ہے
جاں فروش، جگنوں سے بیٹے کا
ضبط ہے کے نہ پوچھو!
جان بلب، شیر خوار کا لاشہ
خود ماں نے پھر سے سنوارا تھا
الصبح جو مسکراتا تھا
ماں کی آنکھ کا تارا
جسے لکھنا تھا، پڑھنا تھا
بہت ہی آگے بڑھنا تھا
ظلمت صبح سے گھبرا کر
کئی دوست احباب گنوا کر
چند مرحوم سوالات
سینے میں دفن کیے
معصومیت سے گھر لوٹا تھا
بڑا چپ چاپ سا، دم سادھ کے لیٹا تھا
الجھے تھے خدوخال، جن کو
خود ماں نے، بڑے نازوں سے سنوارا تھا
وہ شیر خوار کے جس نے
دشمن کو رن میں للکارا تھا
غم سے نڈھال , شیر دل کی اداس ماں
صبر سے بڑھ کر اور کیا کرتی؟
مگر ماں ہے ناں ..!
اب بھی راہ تکتی ہے
اب بھی راہ تکتی ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں