ہم۔۔! دھرتی کے وارث؟





وه آزادی کا روح پرور زمانه یاد کر
برق کے دامن میں تھا جو آشیانه یاد کر


وه جذبه جو آزادی کے متوالوں کی رگوں میں لہو بن کر ڈور رہا تھا۔جنہوں نے اپنا کل میرے آج کے لیے قربان کیا تھا۔ ہاں آزادی۔۔!

مجھے اب بھی یاد ہے وه وقت آسان نہیں تھا۔ بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے میرے اپنوں نے، اس قیمت کے عوض آج ھم آزاد ہیں۔ وارث ہیں اپنی مٹی کے مگر افسوس کے وراثت کو سنبھال نہیں سکتے۔ میں شرم سے مرنے لگتا ہوں جب یہ پڑھتا ہوں یا سنتا ہوں کے آزادی کی داستاں میں رنگ بھرنے والے اپنوں پر کیا کیا بیتی اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اصل وارث بس وہی ہیں۔

ہم تو بس گفتار ہیں بس _______________ گفتار

ہم خود کو زندہ قوم کہنے والے لیکن حقائق سے منہ موڑ کر اس قوم کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا۔حوصلہ شکنی بھی مقصد نہیں ۔میرا خیال ہے کہ حقائق کی تلخی کا ادراک ضرورت وقت کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنے میں کارآمد ہوگا۔ کیونکہ آج ہم ایک قوم کے طور پربہت کمزور ہیں مختصر یہ کے ہم زندہ نہیں ایک مرحوم قوم ہیں اجتماعی رویوں سے لے کر انفرادی رویوں تک (جانتا ہوں کے الفاظ بہت سخت ہیں اگر کسی کو اختلاف ہے تو ممکن ہے کہ وہ ان چند گنے چنے لوگوں میں شامل ہو جو اچھے سچے ہیں لیکن عرضی ہے کہ اپنے دائیں بائیں نظر گھمائیں گہری سانس لیں اور پھر اختلاف یا اتفاق آپ کی مرضی)، بہت کم لوگ بچے ہیں جن کے عمل میں آج بھی زندگی سانسیں لے رہی ہے۔ یہاں خنجر گھونپنے والے اغیارنہیں قاتلوں کا سراغ لگاتے ہیں تو محض ندامت حصے آتی ہے۔ ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ دوسروں کی بربادی سے بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ہم میں زندہ قوموں والا ضمیر کسی بڑے حادثے کا شکار ہو چکا ہے۔

کہیں پڑھا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہ ملک دیا، جسے ہم نے اپنے کرموں سے سنوارنا تھا، مگر افسوس اپنے کرم کہیں سو گۓ، کھو گۓ اور ہمارے کرتوتوں نے اسے تماشا بنا دیا، جیسا مقصد ویسی منزل، پھر وقت نے بھی اپنا فیصلہ صادر کر دیا کہ جیسا منہ ویسی چپیڑ _______________ جس ملک کو ہمارے بزرگوں نے اسلام کا "ماڈل" بنانے کے خواب دیکھے تھے ہم نے اسے رول کر رکھ دیا۔

گہما گہمی ہے افراتفری ہے ۔ اس ماحول میں ایک بات جس کا میں نے عملی مشاہد دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ حقیقت دو طرح کی ہوتی ہے۔
بلکل ویسے ہی جیسے خواب دو طرح کے
کھلی آنکھوں سے نظر آنے والی حقیقت اور بند آنکھوں سے نظر آنے والی حقیقت، جیسےخطرے کو سامنے دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور یوں وہ اس حقیقت سے روشناس ہوتا ہے کے خطرہ ٹل گیا۔ حقیقت ایک ہی ہے مگر ایک بڑے گروہ نے آنکھیں موند رکھی ہیں اور وہم و گماں کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے عروج صرف زندہ قوموں کا مقدر ہے۔مردہ جسم ہوں یا قومیں دونوں زندہ انسانوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے


چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے
جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں
چلو یہ سوچیں ۔۔۔۔!!!
یہ کون ہیں جو ہمی میں رہ کر
ہمارے گھر کو جلا رہیں ہیں  
چلو یہ سوچیں۔۔۔۔!!!

کیونکہ:

وطن کی فکر کر ناداں مصيبت آنے والی ہے
تری برباديوں کے مشورے ہيں آسمانوں ميں

تبصرے