سر گنگا رام ہسپتال کی الٹی گنگا




"الٹی گنگا بہنا"

یہ مقبول کہاوت آپ نے اکثر سنی ہوگی، لیکن آج آپ تفصیل سے پڑھیں گے کہ الٹی گنگا کیسے بہتی ہے ۔

اچھے وقتوں کی بات ہے کہ جب کوئی شخص دستور کے خلاف کوئی کام کرتا تھا توکہا جاتا تھا کہ اس نے تو الٹی گنگا بہادی، مطلب دریا کو مخالف رخ پر چلا دیا ۔ گنگا بھارت کے سینے پر رواں دواں ایک دریا کا نام ہے جو ہندؤں کے لیے مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیں 2525کلو میٹر لمبے اس دریا کو الٹی سمت میں بہانا کتنا مشکل کام ہوگا؟ خیر آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کے بھلے وقتوں میں خلاف دستور کام کتنا مشکل تھا۔

آج کل جس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور جس آسانی اور ہمت سے اڑائی جاتی ہیں یہ محاورہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ سیاستدان ہو یا بیوروکریٹ ، عام آدمی ہو یا خاص آدمی خواہ کوئی بھی ہو اس ملک میں الٹی گنگا بہانا اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سچ پوچھیں تو اسی شوق نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لایا ہے۔

جب گنگا کو الٹا بہانااتنا ہی آسان ہے ، تو پھر "سر گنگا رام " کے نام سے منصوب ہسپتال کی انتظامیہ کیسے پیچھے رہتی؟

یہ 2012 کی بات ہے جب سر گنگا رام ہسپتال کی انتظامیہ نے گنگا کو الٹا بہا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا منصوبہ بنایا۔ سر گنگا رام ہسپتال میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے عملے نے اچانک احتجاج شروع کردیا، ہسپتال میں مریض پریشان ہوئے اور انتظامی امور کی ادائیگی میں مشکلات آئیں تو ان ہڑتالی ملازمین سے مذاکرات، مذاکرات کھیلا گیا۔ جس میں ان تمام ملازمین کے پہلے سے طے شدہ مطالبے کو تسلیم کر کےفوری طور پر ایک اخبار میں اشتہار لگایا گیا۔ جس میں بیروزگاری کی چکی میں پستی عوام سے مختلف آسامیوں کو ایڈہاک بنیادوں پر پُر کرنے کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں اور ہڑتالی ملازمین کو بھی ان آسامیوں پر درخواست دینے کا کہا گیا۔ اس اشتہار میں گریڈ 1 سے گریڈ 6 تک کی 38 آسامیوں کا اعلان کیا گیا۔

ہوا کچھ یوں کے جب درخواستوں کا عمل مکمل ہوا تو بورڈ آف مینجمنٹ نے میرٹ بنایا، مبینہ منصوبہ کے مطابق ہسپتال میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ہڑتالیوں کی درخواستوں کو ترجیح دی گئی اور انہیں آسامیوں پر درخواست دینے والے دیگر امیدواروں کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری کی نظر کردیا گیا۔ انتظامیہ کی جانب سے اس غیر قانونی کام کی انوکھی منطق پیش کی گئی جس کا ذکر آگے چل کر کروں گا۔
سب سے پہلے تو یہ خیال رہے کہ پنجاب میں کسی بھی نوکری کے لیے عمر کی حد مقرر کی جاتی ہے جس کا اعلان خالی آسامیوں کے لیے دیے گئے اشتہار میں کیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت کے پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن 23 کے مطابق کسی بھی نوکری کے لیے عمر کی مقررہ حد میں تجربے اوراعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر چھوٹ دی جاتی ہے۔ جس میں 3 سال کی رعایت دینے کا حق ضلعی منتظم کے پاس محفوظ ہے، جبکہ عمر کی مقررہ حد میں 5 سال کی رعایت دینے کا قانونی اختیار انتظامی سیکریٹری کے پاس ہے، اگر عمر میں 5 سال سے زیادہ کی رعایت درکار ہو تو پھر اس مقدمے کو منتخب نمائندوں کے ایوان میں پیش کیا جاتا ہےاور صوبائی ایوان کی منظوری کے بعد امیدوار کو رعایت دی جاتی ہے۔

تو بات ہو رہی تھی ہڑتالیوں کی خالی آسامیوں پر دی گئی درخواستوں کی تو ہو ا کچھ یوں کہ سر گنگا رام ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالباسط، ڈاکٹر سمی ممتاز، ڈاکٹر عبدالغفار، ڈاکٹر اعجاز احمد شیخ، رافیعہ مرزا، ڈاکٹر عاصم حمید اور ڈاکٹر طارق رشید پر مشتمل بورڈ آف مینجمنٹ نے ان درخواستوں کا جائزہ لیا تو انہیں پتا چلا کہ ہسپتال میں پہلے سے موجود ڈیلی ویجز ملازمین کی عمریں مقررہ حد سے زیادہ ہیں اوران کے لیے رعایت درکار ہے۔ شاید بورڈ آف مینجمنٹ یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کو ہی کام پر رکھا جائے گا اور میرٹ پر پورا اترنے والے دیگر امیدوار اس کے اہل نہیں اس لیےان تمام ملازمین کو عمر کی مقررہ حد میں رعایت دینے کا فیٖصلہ کیا گیا اور پنجاب سول سرونٹ ایکٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے الٹی گنگا بہا دی گئی۔

بورڈ آف مینجمنٹ نے ریاست کے اندر ریاست بنا کر ایک نئے قانون پر پہلے سے ہسپتال میں موجود ڈیلی ویجز ملازمین کوعمر کی مقررہ حد میں 27 سال تک کی رعایت دی گئی۔ یہ رعایت کسی تجربے یا اعلیٰ تعلیم کی بنیا د پر نہیں دی گئی بلکہ اس رعایت کے نام پر "بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے" گئے تھے۔

38 میں سے 37 آسامیوں پر بھرتی کی گئی اور ان میں صرف 2 امیدوار ایسے تھے جو اشتہار میں مقرر کردہ عمر کی حد پر پورا اترتے تھے۔ 8 امیدوار ایسے تھے جن کی عمر میں رعایت قانون کے مطابق 5 سال سے کم تھی تاہم رعایت دینے کی پالیسی (تجربہ اور تعلیم) کو یہاں بھی نظر انداز کیا گیا، باقی 27 امیدواروں کی عمر میں رعایت ماورائے قانون اور میرٹ کا قتل عام کرکے کی گئی۔ یہاں آپ پر ایک اور چونکا دینے والا انکشاف کرتا ہوں۔ جنوری 2014 میں محکمہ صحت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ تمام ملازمین کی تعلیم اسناد کی تصدیق کروائی جائے۔ اب جب تصدیق کا معاملہ آیا توان مشکوک اور کرپشن زدہ بھرتیوں کے تحت ملازمت حاصل کرنے والے 9 ملازمین کی تعلیم اسناد جعلی نکلیں، جن کے خلاف محکمانہ کارروائی اور نوکری سے نکالنے کی ہدایت کی گئی مگر سر گنگا رام کی انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہ کی۔ جعلی اور مشکوک طریقے سے نوکری حاصل کرنے والے یہ افراد جعلی اسناد کے باوجود ادارے کا حصہ ہیں۔ ان ملازمین پر ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے اس قدر شفقت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بہتی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں دھوئے گے بلکہ غوطے لگائے گئے ہیں۔

آپ خود سوچیں کہ 2 سال تک ہسپتال میں ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ایک الیکٹریشن محمد عرفان ولد محمد امین کو کس بنیاد پر سٹرلائزر اسسٹنٹ بھرتی کیا گیا اور عمر کی مقررہ حد میں 7 سال کی چھوٹ دی گئی۔ خیال رہے کہ 28 ستمبر 2012 کو سر گنگا رام ہسپتال کی انکوائری کمیٹی نے محمد عرفان کو سرکاری لیٹر نمبر 10602 کے مطابق ہسپتال کے جنریٹرسے 580 لیٹرڈیزل کی چوری کا مرتکب پایا اور اس پر 59516 روپے جرمانہ عائد کیا جو آج تک ادا نہیں کیا گیا۔ محکمہ صحت کے 2014 کے حکم کے مطابق جب اس کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کی گئی تو وہ بھی جعلی نکلیں، لیکن یہ شخص پورے دھڑلے سے نوکری کر رہا ہے اور انتظامیہ سرکاری خزانے سے ایک کرپٹ شخص کو نوازنے میں مدگار بنی ہوئی ہے۔ اس کیس کے بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ سر گنگا رام ہسپتال کے بورڈ آف مینجمنٹ نے جن لوگوں کو ہسپتال کے لیے ناگزیر قرار دے کر بھرتی کیا وہ مالی اور اخلاقی بے ضابطگیوں میں ملوث ہیں اور کسی طرح بھی سرکاری نوکری کے اہل نہیں۔

ان غیر قانونی بھرتیوں سے اہل لوگوں کو ان کے حق سے محروم کیا گیا کرپٹ لوگوں کو سسٹم کا حصہ بنایا گیا اور صوبائی حکومت کے قوانین سے تجاوز کیا گیا۔ یہ وہ تمام جرائم ہیں جن میں سرگنگا رام ہسپتال کی انتظامیہ ملوث ہے۔

ابھی دو تین دن پہلے کی ہی بات ہے صوبائی مشیر صحت خواجہ سلمان نے ہسپتالوں کے فضلے سے متعلق چیف جسٹس کے ازخودنوٹس کی سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے کام کی تعریف بھی کی جائے، ہم اچھا کام کر رہے ہیں اور میرٹ پر کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے جو بھی جواب دیا ہو لیکن میں خواجہ سلمان صاحب سے سوال کرتا ہوں کے کیا آپ کی اس نا اہلی کی تعریف کی جائے؟ جس میں ایماندار اور اہل لوگوں کا حق مارا جاتا ہے۔ جس میں کرپٹ لوگوں کو سسٹم کا حصہ بنایا جاتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں سرکاری نوکریوں سے نوازا جاتا ہے۔ جس میں ایک ہسپتال کا انتظامی بورڈ صوبائی اختیارات کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ مشیر صحت کو چیف جسٹس نے بہترین مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ کام کر نہیں سکتے تو نوکری چھوڑ دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صوبے میں نظام صحت کی جو صورتحال ہے اخلاقی طور پر خواجہ سلمان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے، تاکہ کوئی قابل بندہ آئے جو اس چور بازاری کو ختم کرے، قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی سر گنگا رام ہسپتال کی انتظامیہ سے میرٹ کے قتل عام اور مشکوک بھرتیوں کا حساب لے۔ کرپٹ ملازمین کو احتساب کر کے رخصت کرے اور ایماندار لوگوں کو میرٹ پر بھرتی کر کے سسٹم کا حصہ بنائے، کیونکہ کے چور راستوں سے ملازمتیں حاصل کرنے والے لوگ سسٹم کو ڈیلیور کرنے نہیں بلکہ سسٹم کو لوٹنے کے لیے اس کا حصہ بنتے ہیں۔ وہ جو تاوان رشوت کی صورت میں ادا کرتے ہیں اس کی سود سمیت واپسی کے لیے ہر جائز اور ناجائز کام کرتے ہیں۔

میرٹ کا نعرہ لگانے والے اور 10سال سے حکومت کرنے والے وزیراعلیٰ کو بھی شرم کرنی چاہیے کہ جو اختیار ایک وزیر اعلیٰ کو حاصل نہیں وہ ایک ہسپتال کے بورڈ آف مینجمنٹ کو کیسے مل گیا۔ الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور 6 سال سے بہہ رہی ہے تب بھی وزیر اعلیٰ شہباز شریف تھے آج بھی وہی ہیں۔ مگریہ مافیا ابھی تک بے لگام ہے اور سرکاری وسائل پر ہاتھ صاف کررہا ہے۔ مجال ہے کہ عوامی نمائندوں کے ایوان کے بلکل سامنے بہتی اس الٹی گنگا پرکوئی سوال اٹھائے کہ کیسے عوامی نمائندوں کے اختیارات کو ایک ہسپتال کے انتظامی بورڈ نےجنبش قلم سے ہوا میں اڑا دیا۔ کرپٹ اور نا اہل لوگوں کو سرکاری نوکریاں کیوں اور کس بنیاد پر دی گئیں؟ میرٹ پالیسی کیا تھی؟ میرٹ کا قتل عام ہوا پرسڑک پار ٹھنڈی عمارت میں بیٹھے عوامی نمائندوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ مگر میں اپیل کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کے اب سر گنگا رام کی الٹی گنگا کو روکا جائے گا اور میرٹ کا قتل کرنے والوں کو کڑے احتساب سے گزارا جائے گا۔ 




تبصرے