پنجاب کے دیگر حلقوں کی طرح گوجرانوالہ میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 84 بھی مرکز نگاہ ہے۔ یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کی جیت گوجرانوالہ کا قلعہ فتح کرنے میں مددگار ثابت ہوگی اور مرکزی پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کے دعوؤں کو بھی درست ثابت کرے گی۔
سب سے پہلے اس حلقہ کے اہم اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
این اے 84 کی آبادی: 793857
رجسٹرڈ ووٹرز: 437879
مرد ووٹرز: 253674
خواتین ووٹرز: 184205
پولنگ اسٹیشن: 302
حلقہ بندی: نوشہرہ ورکاں تحصیل، گوجرانوالہ چٹی تحصیل، ٹاون کمیٹی ایمن آباد(پرانی)، گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن
اہم برادریاں: گجر برادری، راجپوت برادری، کشمیری برادری، ارائیں برادری
قومی اسمبلی کی اس نشست پر کل 12 امیدوار مدمقابل ہیں جن میں سے 7 آزاد اور 5 سیاسی جماعتوں کی ٹکٹس پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 84 میں اصل جوڑ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چودھری بلال اعجاز اور پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار اظہر قیوم ناہرا کے درمیان پڑے گا۔ باقی امیدواروں کے لیے صرف یہی دعا کر سکتا ہوں کہ ان کو اتنے ووٹ مل جائیں کی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع ان کا زر ضمانت ان کو واپس مل جائے۔
دنیا نیوز کے سروے کیمطابق گوجرانوالہ کے اس آخری حلقہ میں پی ٹی آئی کی حمایت 42 فیصد اور مسلم لیگ ن کی حمایت 40 فیصد ہے جبکہ 18 فیصد ووٹر دیگر جماعتوں کے ساتھ ہیں۔
2013 کے عام انتخابات میں موجودہ حلقہ این اے 84 اور سابقہ حلقہ این اے 100 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار اظہر قیوم ناہرا نے 89826 ووٹ لے کر فتح حاصل کی تھی جبکہ چودھری بلال اعجاز نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور 70318 ووٹ لے کر دوسرے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار بنے۔ ان کے مقابلے میں اس وقت کے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عابد جاوید ورک نے صرف 6490 ووٹ حاصل کیے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار تصدق مسعود خان نے 6833 ووٹ حاصل کیے۔ گزشتہ انتخابات میں چودھری بلال اعجاز اور اظہر قیوم ناہرا ہی نمایاں امیدوار تھے اور دیگر کوئی بھی امیدوار 10 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکا۔ مسلم لیگ ن نے تقریباََ 20 ہزار ووٹ سے عام انتخابات 2013 میں اس حلقہ سے فتح حاصل کی تھی۔
یہ تو وہ تمام اعداد و شمار تھے جو آپ کے سامنے پیش کیے اب کچھ تبصرہ ہوجائے۔۔۔!
تو سب سے پہلے یہ کہوں گا کہ 2013 اور 2018 کے انتخابی ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے، مقامی سطح پر بننے والے نئے اتحاد اور حلقہ بندی میں آنے والی تبدیلی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوگی۔ سابق ن لیگی ایم پی اے رفاقت حسین گجر اور متعدد بلدیاتی نمائندوں کی عین انتخابات کے موقع پر بے وفائی، مسلم لیگ ن کی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت اور پاکستان تحریک انصاف کا بڑھتا ہوا گراف لیگی امیدوار کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے تو وہیں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو اظہر قیوم ناہرا کے دور میں ہونے والے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ 2018 کا ووٹر 2013 کی نسبت زیادہ باشعور ہے تو حلقہ این اے 84 میں اس بات کا اطلاق کرتے ہوئے میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ اس حلقہ میں پارٹی ووٹ سے زیادہ شخصی ووٹ ہے۔
خیر حلقہ میں تحریک لبیک کی صورت میں سامنے آنے والا طوفان ناموس رسالت ﷺ جیسے حساس معاملے پر سیاست کر کے لیگی ووٹ کو متاثر کر رہا ہے تو وہی پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے لیے جیت کی امید کو مزید مضبوط بھی کر رہا ہے۔ اگر تحریک لبیک 5 سے 10 ہزار ووٹ سمیٹنے میں کامیاب ہوگئی تو پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو سہولت ملے گی۔
مختصر یہ کہوں گا گوجرانوالہ کے حلقہ نمبر 6 این اے 84 سے کھلاڑیوں کے لیے خوشی کی خبر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چند ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے اور ایک بڑا اپ سیٹ کریں گے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں